Header Ads Widget

Karbala Full Waqia 10 Muharram Imam Hussain ka Akhri Sajda Bayan Shahadat Husayn Story

Pegham Nijat Islamic

اللّٰہ کے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم امام حسین علیہ السّلام کو بار بار بلند کر کے یہ فرماتے تھے کہ
یہ حسین مجھ سے ہے اور اس حسین سے ہوں
اس پہ جو بھی کوئی مشکل وقت آئے تو اس کا ساتھ دینا
کیوں کہ یہ جنت کے جوانوں کے سردار ہیں 
میرا خون ہے، میری اولاد ہے،
لیکن افسوس۔۔۔
ابھی رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی رحلت کو تھوڑا وقت ہی گزرا تھا کہ کربلا کے میدان میں ایک طرف سوا لاکھ کا مجمع تھا دوسری طرف وہ حسین جس کو اپنے نانا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے کندھوں پر سوار ہوتے تھے
امام حسین علیہ السّلام اپنی نانا کی امت سے بار بار کہتے تھے کیوں میرا راستہ روکا ہے اے لوگو مجھے پہچانو میں تمہارے نبی کا نواسہ ہوں کیوں تین دن سے میرے بچوں کو پیاسا رکھا ہے کیوں میرے عزیز و اقارب کو شہید کیا ہے 
بتاؤ۔۔
کیا میں رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی شریعت میں ترامیم کی ہے کیا میں نے کسی کا حق کھایا ہے کیا میں نے کیسی پہ ظلم کیا ہے 
اتنے میں فوج یزید ہم آواز ہو کہ کہنے لگی 
اے حسین ہم تجھے تیرے بابا علی کے بغض میں قتل کر رہے ہیں تاکہ یزید ہماری جھولیاں دولت سے بھر دے 
اے لوگو آج جو اسلام کا پرچم تمہارے ہاتھ میں بلند ہے یہ میرے بابا علی نے بلند کیا مت بھولنا خیبر و خندق میں اگر علی نہ ہوتے تو اسلام کی فتح ناممکن تھی وہ علی جس نے حق کو بلند کیا اسلام کی تبلیغ کی رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی حفاظت کی،
آج اس علی کو یہ اجر دے رہے ہو
اے لوگو۔۔
بتاؤ اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے بار بار میرے بابا علی کا ہاتھ بلند کر کہ فرمایا تھا کہ جہاں حق ہوگا وہاں علی ہوگا اور جہاں علی ہوگا وہاں حق ہوگا
اور آج اس علی کو اور اولاد رسول کو یہ اجر دے رہے ہو 
اتنے میں یزید کی فوج کے سپہ سالاروں نے دیکھا کہ کہیں فوج میں بغاوت نہ ہو جائے 
عمر بن سعد نے کہا اے شمر کیا دیکھ رہے ہو حملہ کرو بس لاکھوں کی فوج نے جب رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے نواسے پہ حملہ کیا تو امام حسین علیہ السّلام نے اللّٰہ کا نام کیا اور زوالفقار کو نیام سے نکالا 
تاریخ گواہ ہے ایک طرف لاکھوں کا مجمع اور ایک طرف تین دن کا بھوکا و پیاسا امام حسین ابن علی زمین پہ اس طرح کی جنگ پہلے کبھی نہیں دیکھی کہ ایک تنہا لاکھوں کے مجمعے کو اس طرح سے فی النار کر رہا ہے کہ فوج اشکیہ واپس پلٹ کہ بھاگنے لگی 
امام حسین علیہ السّلام فوج یزید سے کہنے لگے آؤ تین دن بھوکے کی جنگ دیکھو، تین دن کے پیاسے کی جنگ دیکھو، رسول اللہ کے نواسے کی جنگ دیکھوں  اس کی جنگ دیکھو جس کا جوان بھائی مارا گیا جس کے جوان بیٹے کو اس کی نظروں کے سامنے قتل کیا گیا جس نے اپنے ہاتھوں سے اپنے بچے کی قبر بنائی
امام حسین شیر کی طرح فوج یزید سے لڑ رہے ہیں اتنے میں آواز قدرت آئی کہ
حسین تیرا اللّٰہ تجھ سے راضی ہوا
اس صدا کا سننا تھا امام حسین نے تلوار زوالفقار کو تھام لیا 
اتنے میں عمر سعد کہنے لگا 
شمر یہ کیا دیکھ رہے ہو یہ علی کا شیر ہے اس کو مات دینا ناممکن ہے جاؤ خیموں کو آگ لگا دو شمر یہ حکم سنتے ہی فوج یزید نے خیموں کو آگ لگادی اور کچھ امام حسین کو دور سے تیر مارنے لگے 
امام حسین کبھی خیموں کی طرف بڑھتے ہیں کبھی فوج یزید کی طرف بڑھتے ہیں 
عمر سعد اور شمر نے فوج کو چار حصوں میں تقسیم کیا اور حکم دیا کہ جس کے پاس جو جو چیز ہے وہ دور سے حسین کو مارے
جس کے پاس تیر تھا اس نے تیر مارا، جس کے پاس برچھی تھی اس نے برچھی ماری، جس کے پاس کچھ نہ اس نے کربلا کی گرم مٹی اٹھا کہ امام حسین کو مارتا رہا 
امام حسین علیہ السّلام کے جسم پہ ہزاروں زخم ہو گئے آپ کو اتنے تیر لگے تھے کہ آپ کا جسم مبارک نظر نہیں آ رہا تھا 
بس جیسے ہی نواسہ رسول گھوڑے کی زین سے زمین پہ آتے ہیں تو فوج یزید جھومنا شروع کر دیتی ہے 
لیکن اتنے میں وہ گھوڑا جس پہ امام حسین علیہ السّلام سواری کیا کرتے تھے وہ آپ کے چاروں طرف گھومنے لگا تاکہ میں ان تیروں سے اپنے آقا حسین کو بچا لوں 
وہ گھوڑا دوڑ ہی رہا کہ عمر سعد نے اے لوگو رکو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اس گھوڑے پہ اللّٰہ کے رسول سوار ہوا کرتے تھے کہیں تیر اس گھوڑے نہ لگے اور یوں تیروں کو چلانا بند کر دیا گیا
افسوس ہے۔۔۔
ان لوگوں پہ جن کو اس گھوڑے کا تو احترام تھا جس پہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم سواری کیا کرتے تھے لیکن اس حسین کا احترام بھول گئے جن کو رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم اپنے کندھوں پہ سوار کیا کرتے تھے 
بس۔۔
امام حسین علیہ السّلام زمین کربلا پہ اپنا سر رکھ کہ اللّٰہ کا شکر ادا کر رہے ہیں 
اور وہاں فوج یزید کے مختلف سپاہی امام حسین علیہ السّلام کا سر کاٹنے کے لیئے آتے ہیں جو بھی امام حسین علیہ السّلام کے سر مبارک کو دیکھتا ہے اسے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کا چہرہ مبارک نظر آتا ہے اور وہ چیخ کہ دور چلے جاتے ہیں اتنے میں شمر کہنے لگا یہ کام مجھ سے ہی ہوگا جیسے ہی شمر امام حسین کے گلے پہ خنجر رکھا کہ وہ دیکھے کہ امام حسین کے لب ہل رہے ہیں اس نے سوچا کہ ہم حسین کا خاندان قتل کر دیا اس کے بچوں کو تین دن بھوکا و پیاسا رکھا شاید وہ بد دعا دے رہے ہوں سننے کےلئے کان قریب کرے کہ وہ کیا سنے امام حسین علیہ السّلام اللّٰہ کی دربار میں اللّٰہ کی نعمتوں کا شکر ادا کر رہے ہیں کہ 
اے اللّٰہ اس عظیم امتحان کے لیئے تو نے اس حسین کو چنا 
اتنے میں امام حسین نے آنکھیں کھولیں اور شمر کو کہنے لگے اے شمر کیا تو نہیں جانتا کہ میں رسول اللہ کا نواسہ ہوں، جنت کا سردار ہوں، حق پہ ہوں، بے جرم ہوں، 
شمر نے کہا ہاں مجے معلوم ہے
تو آپ نے فرمایا تو کیوں قتل کر رہے ہو
شمر نے کہا تاکہ یزید میری جھولی دنیاوی دولت سے بھر دے 
بس یہ کہتے کہتے شمر امام حسین کا گلا کاٹتا رہا اور فوج یزید مسلسل جھومتی رہی 
امام حسین کے سر قلم ہونے کے سادات کو لوٹا گیا امام حسین کے سر کو نوکے سنا پہ بلند کر دیا گیا بی بی سکینہ کو تماچے مارنے لگے رسول اللہ کی نواسیوں کے سروں سے چادروں کو لوٹ لیا گیا اور امام حسین علیہ السّلام کے جسم کی توہین کرنے لگے 
تاریخ نے لکھا کہ امام حسین کے جسم میں جو جو چیزیں تھیں وہ خود ٹوٹنے لگی اتنے میں ایک شخص امام حسین علیہ السّلام کے قریب آیا امام حسین علیہ السلام کے ہاتھ میں ایک انگوٹھی پہنی ہوئی تھی اتارنے کی کوشش کی نہ اتری وہ انگلی کاٹ کہ انگوٹھی لے گیا آپ کے جسم کو رسیوں سے باندھ کے کربلا کی گرم ریت پہ ادھر سے ادھر پھرایا گیا
اتنے میں عمر سعد کہنے اے شمر حسین و حسین کے ساتھیوں کی لاشوں کا وہ حشر کرتے ہیں کہ رہتی دنیا تک یزید کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھائے سب کے جسم سے سروں کو کاٹ لو اور سب کی لاشوں کو پامال کر دو زمین کربلا گواہ ہے کہیں سے کوئی قبیلہ اٹھ کہ آتا ہم حر کی لاش کو پامال نہیں ہونے دیں گے کہیں ام لیلیٰ کا قبیلہ آتا ہے ہم علی اکبر کی لاش پامال نہیں ہونے دیں گے کہیں ام رباب کا قبیلہ اٹھ کہ آتا ہے ہم علی اصغر کی لاش پامال نہیں ہونے دینگے ایک ایک شہید کی لاش پامال ہونے والی جگہ سے ہٹائی گئی 
تاریخ گواہ صرف رسول اللہ کا نواسہ کربلا کی گرم زمین پہ پڑا رہا اور مغرب کے گھوڑے مشرق کی طرف اور مشرق کے گھوڑے مغرب کی طرف دوڑتے رہے امام حسین کا جسم پامال ہوتا رہا 
امام جعفر صادق علیہ السّلام فرماتے ہیں
میرا سلام ہو میرے غریب دادا پر جس کی لاش کو اس طرح سے پامال کیا گیا کہ ان کی دائیں پسلیاں بائیں پسلیوں کی طرف اور بائیں پسلیاں دائیں پسلیوں کی طرف چلی گئی جن کا سینہ و پشت ایک ساتھ ہو گیا 
سلام ہو میرے اس بے وطن دادا حسین پر جن کے جسم کے ٹکڑوں کو زمین کربلا میں بکھیرا گیا 
سلام ہو سلام ہو سلام ہو سلام ہو سلام ہو سلام ہو

#PaighameNijat

Post a Comment

0 Comments