Assalamualaikum Ya Ali Madad
دوزخ کا بیان
یہ ایک مکان ہے کہ اُس قہار و جبار کے جلال و قہر کا مظہر ہے۔ جس طرح اُس کی رحمت و نعمت کی انتہا نہیں کہ انسانی خیالات و تصورات جہاں تک پہنچیں وہ ایک شَمّہ ہے اُس کی بے شمار نعمتوں سے، اسی طرح اس کے غضب و قہر کی کوئی حد نہیں کہ ہر وہ تکلیف و اذیت کہ اِدراک کی جائے، ایک ادنیٰ حصہ ہے اس کے بے انتہا عذاب کا۔ قرآنِ مجید و احادیث میں جو اُس کی سختیاں مذکور ہیں ، ان میں سے کچھ اِجمالاً بیان کرتا ہوں ، کہ مسلمان دیکھیں اور اس سے پناہ مانگیں اور اُن اعمال سے بچیں جن کی جزا جہنم ہے۔ حدیث میں ہے کہ جو بندہ جہنم سے پناہ مانگتا ہے، جہنم کہتا ہے: اے رب! یہ مجھ سے پناہ مانگتا ہے، تُو اس کو پناہ دے۔ قرآن مجید میں بکثرت ارشاد ہوا کہ جہنم سے بچو! دوزخ سے ڈرو! ہمارے آقا و مولیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَہم کو سکھانے کے لیے کثرت کے ساتھ اُس سے پناہ مانگتے۔ جہنم کے شرارے (پھول) اُونچے اُونچے محلوں کی برابر اُڑیں گے، گویا زَرد اُونٹوں کی قطار کہ پیہم آتے رہیں گے۔
آدمی اور پتھر اُس کا ایندھن ہے، یہ جو دنیا کی آگ ہے اُس آگ کے ستّر جُزوں میں سے ایک جُز ہے۔ جس کو سب سے کم درجہ کا عذاب ہوگا، اسے آگ کی جوتیاں پہنا دی جائیں گی، جس سے اُس کا دماغ ایسا کَھولے گا جیسے تانبے کی پتیلی کَھولتی ہے، وہ سمجھے گا کہ سب سے زیادہ عذاب اس پر ہو رہا ہے، حالانکہ اس پر سب سے ہلکا ہے سب سے ہلکے درجہ کا جس پر عذاب ہوگا، اس سے اﷲ عَزَّوَجَلَّ پوچھے گا: کہ اگرساری زمین تیری ہو جائے تو کیا اس عذاب سے بچنے کے لیے تو سب فدیہ میں دیدے گا؟ عرض کرے گا: ہاں ! فرمائے گا: کہ جب تُو پُشتِ آدم میں تھا تو ہم نے اِس سے بہت آسان چیز کا حکم دیا تھا کہ کفر نہ کرنا مگر تُو نے نہ مانا۔ جہنم کی آگ ہزار برس تک دھونکائی گئی، یہاں تک کہ سُرخ ہوگئی، پھر ہزار برس اور، یہاں تک کہ سفید ہو گئی، پھر ہزار برس اور، یہاں تک کہ سیاہ ہو گئی، تو اب وہ نِری سیاہ ہے ، جس میں روشنی کا نام نہیں ۔ جبرئیل عَلَیْہِ السَّلاَم نے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَسے قسم کھا کر عرض کی: کہ اگر جہنم سے سوئی کے ناکے کی برابر کھول دیا جائے تو تمام زمین والے سب کے سب اس کی گرمی سے مر جائیں اور قسم کھا کر کہا : کہ اگر جہنم کا کوئی داروغہ اہلِ دنیا پر ظاہر ہو تو زمین کے رہنے والے کُل کے کُل اس کی ہَیبت سے مر جائیں اور بقسم بیان کیا: کہ اگر جہنمیوں کی زنجیر کی ایک کڑی دنیا کے پہاڑوں پررکھ دی جائے تو کانپنے لگیں اور انہیں قرار نہ ہو، یہاں تک کہ نیچے کی زمین تک دھنس جائیں ۔ یہ دنیا کی آگ (جس کی گرمی اور تیزی سے کون واقف نہیں کہ بعض موسم میں تو اس کے قریب جانا شاق ہوتا ہے، پھر بھی یہ آگ) خدا سے دعا کرتی ہے کہ اسے جہنم میں پھر نہ لے جائے ، مگر تعجب ہے انسان سے کہ جہنم میں جانے کا کام کرتا ہے اور اُس آگ سے نہیں ڈرتا جس سے آگ بھی ڈرتی اور پناہ مانگتی ہے۔
دوزخ کی گہرائی کو خدا ہی جانے کہ کتنی گہری ہے، حدیث میں ہے کہ اگر پتھر کی چٹان جہنم کے کنارے سے اُس میں پھینکی جائے تو ستّر برس میں بھی تہ تک نہ پہنچے گی اور اگر انسان کے سر برابر سیسہ کا گولا آسمان سے زمین کو پھینکا جائے تو رات آنے سے پہلے زمین تک پہنچ جائے گا، حالانکہ یہ پانسو برس کی راہ ہے۔ پھر اُس میں مختلف طبقات و وَادی اور کوئیں ہیں ، بعض وادی ایسی ہیں کہ جہنم بھی ہر روز ستّر مرتبہ یا زیادہ اُن سے پناہ مانگتا ہے ، یہ خود اس مکان کی حالت ہے، اگر اس میں اور کچھ عذاب نہ ہوتا تو یہی کیا کم تھا! مگر کفّار کی سَرْزَنِش کے لیے اور طرح طرح کے عذاب مہیّا کیے، لوہے کے ایسے بھاری گُرزوں سے فرشتے ماریں گے کہ اگر کوئی گُرز زمین پر رکھ دیا جائے تو تمام جن و انس جمع ہو کر اُس کو اُٹھا نہیں سکتے۔بُختی اونٹ کی گردن برابر بچھو اور اﷲ (عَزَّ وَجَلَّ ) جانے کس قدر بڑے سانپ کہ اگر ایک مرتبہ کاٹ لیں تو اس کی سوزش، درد، بے چینی ہزار برس تک رہے، تیل کی جلی ہوئی تلچھٹ کی مثل سخت کَھولتا پانی پینے کو دیا جائے گا، کہ مونھ کے قریب ہوتے ہی اس کی تیزی سے چہرے کی کھال گر جائے گی۔سر پر گرم پانی بہایا جائے گا۔
جہنمیوں کے بدن سے جو پیپ بہے گی وہ پلائی جائے گی، خاردار تُھوہڑ کھانے کو دیا جائے گا ، وہ ایسا ہو گا کہ اگر اس کا ایک قطرہ دنیا میں آئے تو اس کی سوزش و بدبُو تمام اہلِ دنیا کی معیشت برباد کردے اور وہ گلے میں جا کر پھندا ڈالے گا ، اس کے اتارنے کے لیے پانی مانگیں گے، اُن کو وہ کُھولتا پانی دیا جائے گا کہ مونھ کے قریب آتے ہی مونھ کی ساری کھال گل کر اس میں گِر پڑے گی، اور پیٹ میں جاتے ہی آنتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا اور وہ شوربے کی طرح بہہ کر قدموں کی طرف نکلیں گی ، پیاس اس بلا کی ہوگی کہ اس پانی پر ایسے گریں گے جیسے تونس کے مارے ہوئے اونٹ ، پھر کفّار جان سے عاجز آکرباہم مشورہ کر کے مالک عَلَیْہِ الصَّلَاۃُُوَالسَّلاَم داروغۂ جہنم کو پکاریں گے: کہ اے مالک (عَلَیْہِ الصَّلَاۃُُوَالسَّلاَم)! تیرا رب ہمارا قصہ تمام کر دے، مالک عَلَیْہِ الصَّلَاۃُُوَالسَّلاَم ہزار برس تک جواب نہ دیں گے، ہزار برس کے بعد فرمائیں گے: مجھ سے کیا کہتے ہو،
اُس سے کہو جس کی نافرمانی کی ہے!، ہزار برس تک رب العزت کو اُس کی رحمت کے ناموں سے پکاریں گے، وہ ہزار برس تک جواب نہ دے گا، اس کے بعد فرمائے گا تویہ فرمائے گا: ’’دُور ہوجاؤ! جہنم میں پڑے رہو! مجھ سے بات نہ کرو!‘‘ اُس وقت کفّار ہر قسم کی خیر سے نا اُمید ہو جائیں گے اور گدھے کی آواز کی طرح چلّا کر روئیں گے ابتدائً آنسو نکلے گا، جب آنسو ختم ہو جائیں گے تو خون روئیں گے، روتے روتے گالوں میں خندقوں کی مثل گڑھے پڑ جائیں گے، رونے کا خون اور پیپ اس قدر ہو گا کہ اگر اس میں کشتیاں ڈالی جائیں تو چلنے لگیں ۔
جہنمیوں کی شکلیں ایسی کرِیہ ہوں گی کہ اگر دنیا میں کوئی جہنمی اُسی صورت پر لایا جائے تو تمام لوگ اس کی بدصورتی اور بدبُو کی وجہ سے مر جائیں ۔ اور جسم ان کا ایسا بڑا کر دیا جائے گا کہ ایک شانہ سے دوسرے تک تیز سوار کے لیے تین ۳دن کی راہ ہے۔ ایک ایک داڑھ اُحد کے پہاڑ برابر ہوگی ، کھال کی موٹائی بیالیس ذراع کی ہوگی ، زبان ایک کوس دو کوس تک مونھ سے باہر گھسٹتی ہوگی کہ لوگ اس کو روندیں گے ، بیٹھنے کی جگہ اتنی ہوگی جیسے مکہ سے مدینہ تک اور وہ جہنم میں مونھ سکوڑے ہوں گے کہ اوپر کا ہونٹ سمٹ کر بیچ سر کو پہنچ جائے گا اور نیچے کا لٹک کر ناف کو آلگے گا۔
ان مضامین سے یہ معلو م ہوتا ہے کہ کفّار کی شکل جہنم میں انسانی شکل نہ ہوگی کہ یہ شکل اَحسنِ تقویم ہے اور یہ اﷲ عَزَّ وَجَلَّ کو محبوب ہے، کہ اُس کے محبوب کی شکل سے مشابہ ہے، بلکہ جہنمیوں کا وہ حُلیہ ہے جو اوپر مذکور ہوا، پھر آخر میں کفّار کے لیے یہ ہوگا کہ اس کے قد برابر آگ کے صندوق میں اُسے بند کریں گے، پھر اس میں آگ بھڑ کائیں گے اور آگ کا قُفل لگایا جائے گا، پھر یہ صندوق آگ کے دوسرے صندوق میں رکھا جائے گا اور ان دونوں کے درمیان آگ جلائی جائے گی اور اس میں بھی آگ کا قفل لگایا جائے گا، پھر اِسی طرح اُس کو ایک اور صندوق میں رکھ کر اور آگ کا قفل لگا کر آگ میں ڈال دیا جائے گا، تو اب ہر کافر یہ سمجھے گا کہ اس کے سوا اب کوئی آگ میں نہ رہا ، اور یہ عذاب بالائے عذاب ہے اور اب ہمیشہ اس کے لیے عذاب ہے۔
جب سب جنتی جنت میں داخل ہولیں گے اور جہنم میں صرف وہی رہ جائیں گے جن کو ہمیشہ کے لیے اس میں رہنا ہے، اس وقت جنت و دوزخ کے درمیان موت کو مینڈھے کی طرح لا کر کھڑا کریں گے، پھر مُنادی جنت والوں کو پکارے گا، وہ ڈرتے ہوئے جھانکیں گے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہاں سے نکلنے کا حکم ہو، پھر جہنمیوں کو پکارے گا،وہ خوش ہوتے ہوئے جھانکیں گے کہ شاید اس مصیبت سے رہائی ہو جائے، پھر ان سب سے پوچھے گا کہ اسے پہچانتے ہو؟ سب کہیں گے: ہاں ! یہ موت ہے، وہ ذبح کر دی جائے گی اور کہے گا: اے اہلِ جنت! ہمیشگی ہے، اب مرنا نہیں اور اے اہلِ نار! ہمیشگی ہے، اب موت نہیں ، اس وقت اُن کے لیے خوشی پر خوشی ہے اور اِن کے لیے غم بالائے غم۔
نَسْألُ اللہَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِي الدِّیْنِ وَالدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ۔(بہار ِشریعت،حصہ اول،جلد۱،صفحہ۱۶۳تا۱۷۱)
0 Comments